خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے شعبے “فلسطین اور مزاحمت” کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل میں موجودہ دراڑوں کے جائزے اور اس مسئلے میں غور و فکر کے بموجب اسرائیل اور فلسطین کے شعبے کے محققین اس مسئلے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور جامع تحقیقات کے ذریعےاندراڑوں کو آشکار کر رہے ہیں اور نظریات کو منصوبہ سازی کے ہمراہ میدان میں عمل میں لا رہے ہیں۔ ڈاکٹر علی رضا سلطان شاہی طویل عرصے سے صہیونیت اور اسرائیل کے سلسلے میں مطالعے اور تحقیق میں مصروف ہیں۔
ذیل کا متن ڈاکٹر سلطان شاہی کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نمائندے کا مکالمہ ہے جو قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
خیبر: اسرائیل نامیریاست کی دراڑیں آج کے ایام میں ماضی سے کہیں زیادہ قابل مشاہدہ ہیں؛ اس ریاست میں موجود اہم ترین دراڑوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
سلطان شاہی: میں نے صہیونی ریاست کے وحود کے اندر کی دراڑوں میں زیادہ تر کام اس کی آبادی سے متعلق کیا ہے اور میرا خیال ہے کہ آبادی کا مسئلہ اس ریاست کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ دنیا کے ۱۰۲ ممالک سے اٹھاون لاکھ یہودی مقبوضہ فلسطین میں آن بسے ہیں؛ جب ہم کہتے ہیں کہ ۱۰۲ ممالک سے، یعنی ۱۰۲ مختلف ثقافتی، کرداری، سیاسی، سماجی، مذہبی، قومیاور زبانی خصوصیات، جنہیں ایک ریاست کی عملداری میں اکٹھا کیا گیا ہے۔
یہاں ہجرت کرنے والے اکثر یہودی عبرانی زبان نہیں بول سکتے ہیں بلکہ صرف کچھ لوگ عبرانی میں بات چیت کرسکتے ہیں۔ بطور مثال مقبوضہ فلسطین میں یہودی ریاست کے تحت ایرانی یہودیوں کی تعداد تقریبا دو لاکھ ہے لیکن اس قدر دوسرے یہودیوں سے بیگانہ ہیں کہ ایرانی یہودیوں کی اپنی کتابیں اور اپنے رسالے اور اخبارات ہیں اور اتنا طویل عرصہ گذرنے کے باوجود جبرا بنائی گئی تہذیب میں گھل مل نہیں سکے ہیں۔
البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس ریاست میں معمول کے معنوں میں کوئی خاص تہذیب موجود نہیں ہے بلکہ سب یورپی روش اپنائے ہوئے ہیں کیونکہ زیادہ تر یہودی یورپ سے یہاں آ گئے ہیں۔ مشہد کے یہودی صہیونی ریاست میں حتی دوسرے ایرانی یہودیوں سے بھی بیگانے ہیں، چہ جائےکہ وہ اسرائیلی بن جائیں۔ اس وقت نیویارک میں مقیم مشہد کے یہودیوں کی اپنی الگ تنظیم ہے۔
یہ دراڑیں جس قدر کہ زبانی، قومی، ثقافتی اور اعتقادی لحاظ سے زیادہ ہوں، صہیونی معاشرے کی سطح پر اتنی ہی دراڑیں معرض وجود میں آئیں گی۔ اسی بنا پر صہیونی اپنے منصوبوں میں مسائل کا شکار ہوگئے ہیں۔ کیونکہ المختصر: “یہاں آبادی کا مسئلہ ہے”؛ جب سے یہودی ریاست بنی ہے، اب تک اسقاط حمل کے ۲۰ لاکھ واقعات سامنے آئے ہیں۔
یہودی ریاست کی آبادی میں اضافے کی شرح بمشکل ۱٪ ہے؛ الٹی ہجرت [اور یہودیوں کی اپنے آبائی ممالک میں واپسی] میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور فلسطین کی طرف یہودیوں کی ہجرت مسلسل کم ہورہی ہے۔ یہودی نوجوانوں میں امریکی اور یورپی طرز زندگی اپنانے کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے یعنی یہ کہ یہودی ریاست میں رہنے کے لئےانکے ہاں کوئی محرک نہیں ہے۔
یہاں کے مردوں اور عورتوں کو فوج میں جبری خدمت کرنا پڑتی ہے، اس کے باوجودانکے مردوں اور عورتوں میں جنگ کی طرف رغبت بالکل نہیں پائی جاتی اور آسائش طلبی کا شوقانکے اوپر مکمل طور پر غالب آچکا ہے۔ یہودی ریاست کی افواج میں نافرمانی کے واقعات بہت زیادہ ہیں۔
ادھر آبادی میں اضافے کا رجحان کم ہونے کے ساتھ ساتھ، فلسطینیوں کی آبادی میں اضافے کی شرح ۴ فیصد تک پہنچ چکی ہے؛ وہ قدس کی آزادی کی آرزو سے لیس ہیں، یہودیوں کے خلاف ہیں اور اس وقت [ملینوں فلسطینیوں کو ملک سے نکال باہر کئے جانے کے باوجود] فلسطینیوں کی آبادی تقریبا یہودی آبادی کے برابر ہے۔
خیبر: کیا مذکورہ فلسطینی آبادی میں آپ نے بیرون ملک مقیم فلسطینی پناہ گزینوں کو شمار نہیں کیا؟
– نہیں! اگر پناہ گزینوں کو بھی فلسطینیوں کی اندرونی آبادی میں شامل کریں توانکی آبادی یہودیوں کے دو گنا ہوجائے گی؛ اور یہی یہودی ریاست کے لئے بہت بڑی آفت ہے جس کا وہ اعلانیہ اظہار نہیں کرتے لیکن بہت سے ادارے ہیں جو اس مسئلے کے حل کے درپے ہیں؛ اور وہ خود بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر آبادی میں توازن بحال نہ کرسکیں تو انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خیبر: آبادی کی بنیاد پر اہم دراڑ کے علاوہ کیا فلسطین پر قابض یہودی ریاست میں مزید دراڑیں بھی ہیں؟
– کسی وقت جب یہاں اشکنازی یہودی تھے توانمیں سے ہر کسی کا اپنا ایک رتبہ ہوتا تھا اور بہتر اقتصادی اور معاشرتی پوزیشن کے ساتھ حساس اور کلیدی مناصب تک رسائی ممکن تھی لیکن ۱۹۷۰ کے عشرے سے ۱۹۸۰ کے عشرے تک ایتھوپیا کے یہودی بھی ہجرت کرکے مقبوضہ فلسطین آگئے اور یوں یہاں بڑی تعداد میں سیاہ فام باشندے بھی آباد ہوئے جس کے نتیجے میں صہیونی ـ یہودی ریاست کے مسائل میں نسلی دراڑ بھی شامل ہوگئی۔
ابتداء میں تو افریقی کوئی خاص توقع نہیں رکھتے تھے لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ فلسطین میں بہت سے طبقے ہیں جو اپنے حقوق کے لئے ہڑتالیں کرتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں اور سڑکوں کو بند کرتے ہیں تو وہ بھی اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر آئے اور دوسرے یہودیوں کے برابر کے شہری حقوق کا مطالبہ کیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اشکنازی، کالے اور سفارادی یہودیوں کے درمیان کشمکش اور تنازعے کی صورت حال حکمفرما ہے۔
علاوہ ازیں میزبان [مقبوضہ] ملک “عرب” اور “دروزی” نامیقوم کا ملک ہے جن کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے؛ اور پھر یہاں “عرب یہودی” بھی ہیں جو پوچھ رہے ہیں کہ انہیں فوج میں کیوں نہیں جانے دیا جاتا اور انہیں فوج کے فوائد سے مستفید کیوں نہیں ہونے دیا جاتا؟ اب آپ خود اسرائیل نامیجعلی ریاست کے اندر ایک نگاہ ڈالیں اور دیکھ لیں کہ یہودیوں کے درمیان کیا واقعات رونما ہو رہے ہیں اور غیر یہودی، یہودیوں کی نسبت کس طر عمل کررہے ہیں؟
بعض یہودی نوجوان کہتے ہیں کہ اگر یہاں کا حکمران نظام صہیونیت اور قومییہودی تحریک ہے تو پھر یہودی ریاست کے کنیسے میں ایک عرب اذان کیوں دیتا ہے؟ اس کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟ اسی بنا پر دائیں بازو کی یہودی جماعتوں کا خیال ہے کہ اب وہ زمانہ گذر گیا ہے جب ہمارا اپنا آپ دنیا کو دکھانے کا دور گذر چکا ہے، اسی بنا پر انھوں نے کچھ اقدامات کا منصوبہ بنایا ہے کہ کنیسے کو ایسے افراد سے خالی کرایا جائے۔ “اپنا آپ لوگوں کو دکھانے کا زمانہ گذر چکا ہے” سے مراد یہ ہے کہ اب وہ وقت گذر گیا ہے کہ ہم دنیا کو بتاتے رہیں کہ اگر ایک غیر یہودی بھی آیا تو کوئی حرج نہیں ہے اور ہم اسے شہریت دے دیں۔
اس وقت فلسطینیوں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، دوسری طرف سے دروزیوں کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ادھر ۲۰ لاکھ عرب ۱۹۴۸ کی فلسطینی سرزمین میں سکونت پذیر ہیں، تو کیا یہودی انہیں دریابرد کریں گے؟ قتل کریں گے؟ نکال باہر کریں گے؟ اصولی طور پر وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہودی ریاست کو مختلف قسم کی بند گلیوں کا سامنا ہے جنہوں نے اسے شکست و ریخت سے دوچار کردیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بازدید : 563
سه شنبه 15 ارديبهشت 1399 زمان : 20:22